کیا کہوں آپ سے کہ کیا ہوں میں
نسلِ آدم کا سلسلہ ہوں میں
کوئی گُتھّی ہوں نَے معمّہ ہوں
عام سا بندۂ خدا ہوں میں
صدق گوئی مزاج میں ہے، مگر
ابنِ آدم ہوں، پُر خطا ہوں میں
سچا اپنے کو کہہ نہیں سکتا
جھوٹ مشکل سے بولتا ہوں میں
دین اُس کی ہے عزت و ناموس
سر بہ سر شکرِ کبریا ہوں میں
وہ جو اک شہرِ علم کا دَر ہے
بس اُسی در کا اِک گدا ہوں میں
خوش نسب ہوں کہ زیدی سیّد ہوں
نور کی خاک سے بنا ہوں میں
طالبِ مغفرت ہوں اُن کے لیے
جن کی آغوش کا پلا ہوں میں
An excerpt of a poem from the book “Hurmat-e-Hurf” which can be read here.
خوش نصب ہوں کہ زیدی سید ہوں
نور کی کااک سے بنا ہوں میں
،، زبردست سر بہت عمدہ غزل